چولستان کی پیاس کون بجھائے گا؟
سندھ کا علاقہ تھر پارکر ہو یا پنجاب کا علاقہ چولستان جہاں پانی کی قلت کی وجہ سے موت رقصاں نظر آتی ہے،
ان دنوں چولستان یزمان کی انتہائی دکھ بھری، جانکاہ خبریں زیرِ گردش ہیں، جہاں بھوک، پیاس کئی جانیں لے چکی ہے، کہیں جانوروں کے لاشے پڑے ہیں، تو کسی جگہ پیاس کے مارے پرندوں کی مری ہوئی ٹولیاں دکھائی دیتی ہیں، اور وہیں پر انسانی جانیں بھی جاں بلب نظر آتی ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بلک بلک کر روتے روتے مر رہے ہیں، والدین کی آہ و فغاں جاری ہے، لوگوں کی نگاہیں آسمان پر بادلوں کی منتظر ہیں،
یہ روح فرسا منظر ان ذہنوں میں کب سما سکتا ہے جو استنجاء کے لئے بھی اتنا پانی بہا دیتے ہیں کہ وہی پانی روہی، چولستان کے کئی لوگوں کی جان بچا سکتا ہے،
آج پانی ضائع کرتے ہوئے ہمیں کچھ بھی احساس نہیں ہوتا، حالانکہ یہی احساس پیدا کرنے کے لئے اسلام نے کیا تعلیم دی ہے، اس سے ہم ناواقف ہیں، شاید ایسے مواقع کے واسطے شفیق پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی تربیت فرمائی،
حدیث پاک میں آتا ہے،
أنَّ النَّبيَّ ﷺ مرَّ بسَعدٍ وَهوَ يتوضَّأُ، فقالَ: ما هذا السَّرَفُ يا سَعدُ؟ قالَ: أفي الوضوءِ سَرفٌ قالَ: نعَم، وإن كنتَ على نَهْرٍ جارٍ"
(سنن ابن ماجہ)
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ کے پاس سے گزرتے ہوئے فرمایا جبکہ حضرت سعد وضو فرما رہے تھے:
اے سعد! یہ کیا اسراف ہے؟
حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا، کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟
فرمایا: ہاں، اگرچہ آپ جاری نہر پر کیوں نہ ہوں،
پانی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے، اسے ہر ممکن کوشش کے ذریعے پورا کرنا حکومتوں کا فریضہ ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومتیں یا دوسری با اختیار جماعتیں "جمہوری مردار" کو بھنبھوڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار بیٹھی ہیں، گویا انہیں ان مسائل سے کچھ بھی واسطہ تعلق نہیں،
پھر ایسے ضروری مسائل کو اجاگر کرنا میڈیا کا کام ہے، لیکن اسے سیاسی خبروں یا عریاں معاشرے کی عریانیت پھیلانے والی خبروں سے فرصت ہی نہیں،
کبھی عامر لیاقت ہیڈ لائینز میں نظر آئے گا تو کبھی حریم شاہ، کسی طریقے چینلز کی ریٹنگ بڑھتی رہے، بس یہی فکر ان کو کھائے جا رہی ہے،
بہرحال یہ با اختیار طبقہ کچھ نہ کرے تو ہر عام شہری جس کی وہاں تک پہنچ ہو سکتی ہے، ضرور اپنا کردار ادا کرے،
ہمارے دین میں تو پانی پلانے کو افضل ترین صدقہ قرار دیا گیا ہے،
فرمایا: أفضلُ الصدقةِ سقيُ الماءِ"
(سنن نسائی)
صرف انسان ہی نہیں بلکہ پیاسے جانوروں کو بھی پانی پلانا اللّٰہ تعالٰی کو اتنا محبوب عمل ہے کہ رب کی نافرمان باغیہ، گناہوں میں لتھڑی عورت کو ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا جاتا ہے،
اور اپنے اختیار سے کسی جان کو بھوکا پیاسا مارنا چاہے وہ جانور کیوں نہ ہو، جہنم میں جانے کا سبب ٹھہرایا گیا ہے،
جیسا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا سَقَتْهَا إِذْ حَبَسَتْهَا، وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ ". (صحیح البخاری)
ترجمہ:
ایک عورت کو بلی کے قید کرنے پر جس سے وہ مر گئی عذاب میں مبتلا کیا گیا، سو وہ عورت جہنم میں داخل ہو گئی، کیونکہ اس نے نہ بلی کو کچھ کھلایا پلایا جب سے اسے قید کیا، اور نہ آزاد کیا کہ وہ خود حشرات الارض کھا لیتی،
آج روہی پیاسی ہے، چولستان کا مسلمان پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے، درحقیقت نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اس وعدے کا مستحق بننے کا وقت ہے،
فرمایا:
أَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِنًا شَرْبَةً عَلَى ظَمَأٍ سَقَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ، (سنن ابی داود)
ترجمہ: کوئی بھی مومن کسی مومن کو پیاس کی حالت میں ایک گھونٹ پلا دے اللّٰہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز (اعلیٰ ترین پاک شفاف شراب) رحیق مختوم پلائے گا،
ایک روایت میں تو یہاں تک آیا ہے کہ
"مَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ حَيْثُ يُوجَدُ الْمَاءُ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَ رَقَبَةً، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ حَيْثُ لَا يُوجَدُ الْمَاءُ فَكَأَنَّمَا أَحْيَاهَا " (سنن ابن ماجہ)
ترجمہ: جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ پانی کا ایک گھونٹ پلایا جہاں پانی مل جاتا ہے تو گویا کہ اس نے ایک غلام کو آزاد کروایا، اور جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ پانی کا ایک گھونٹ پلایا جہاں پانی نہیں ملتا تو گویا کہ اس نے اسے زندگی بخش دی،
بحثیت مسلمان ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں
اللہ پاک ہم سب پر اپنا رحم عطا فرمائے آمین ثمہ آمین
0 Comments